دل ہے کہ ہے آزاد فضاؤں کا پرندہ، احمد امیر پاشا

دل ہے کہ ہے آزاد فضاؤں کا پرندہ
جیسے ہو کسی سرحدی گاؤں کا پرندہ

اس دشت انا میں تو کوئی پیڑ نہیں ہے
اترے گا یہاں کیسے وفاؤں کا پرندہ

خیرات میں پھینکے ہوئے دانوں کی ہوس میں
جا بیٹھا مزاروں پہ دعاؤں کا پرندہ

دانستہ بچھڑ جاتا ہے صحرا کے سفر میں
نکلا ہے مرا یار بھی چھاؤں کا پرندہ

لایا ہے خبر ایک نئے عہدِ جفا کی
فردا بھی ہے نا دیدہ بلاؤں کا پرندہ

شہروں میں کوئی خاص ٹھکانے نہیں ہوتے
لوٹ آتا ہے گھر شام کو گاؤں کا پرندہ

ہم کو بھی کبھی موسمِ گل راس نہ آیا
بلبل بھی تو ہے سبز خزاؤں کا پرندہ