اقبال اشہرؔ کا شمار ان تازہ کار شعراء میں ہوتا ہے جو غزل کی تازگی اور سنجیدگی برقرار رکھے ہوئے ہیں جہاں یہ نوجوان شاعر نئی غزل کے حوالے سے مشاعروں میں اپنی جگہ بنا چکا ہے وہیں مخصوص شعری وادبی مجلسوں میں اس کی موجودگی خوش گوار اضافہ مانی جانی ہے اس نے بہت کم عرصے میں ملک اور ملک سے باہر مشاعروں اور رسائل کے ذریعے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے مشاعروں کی چمک دمک اور شہرت کی چکا چوند میں وہ کسی فیشن زدگی یا عامیانہ پن کا شکار نہیں ہوا بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرتے رہنا اس کی فطرت ہے اس کے اندر کا آدمی توانا اور فعال ہے فکری، فنی اور اسلوبی سطح پر نت نئے تجربے کرنا اس کی سرشت کا حصہ ہے اس کی تخلیقی زبان شائستہ اور آسان ہے یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ ان آسانیوں کی مشکلیں وہی تخلیقی ذہن سمجھتے ہیں جو ان کانٹوں پر چلتے ہیں۔
اقبال اشہر کے یہاں شاعری کے لیے ضروری تشکیلی عناصر کی چستی ودرستگی اپنی جگہ مگر اس کا ترنم اور مدھم مترنم لہجہ اشعار کی ترسیل میں بڑی معاونت کرتا ہے۔ ندرت خیال اور اظہار کی صفائی اس کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
بیٹھوگے پر سمیٹ کے جب شام کے قریب
یہ رت جگے یہ لوگ بہت یاد آئیں گے
غزل کے لہجے سے روٹھ جائیں تو چٹھیاں کتنی بے مزہ ہوں
نہ وہ مجھے آفتاب سمجھے نہ میں اسے ماہتاب لکھوں
ہر شام کھنچے آتے ہیں معصوم فرشتے
نانی کی پٹاری میں کوئی سبز پری ہے
تیری یادیں تو چراغوں کی قطاریں بن گئیں
پہلے بھی گھر میں اُجالا تھا مگر ایسا نہ تھا
کوئی آسان راستہ ڈھونڈو
کوئی دشوار کام کر جائو
وہ کم سنی کی شفیق یادیں گلاب بن کر مہک اٹھی ہیں
اُداس شب کی خموشیوں میں یہ کون لوری سنا رہا ہے
اقبال اشہر تخلیقی سطح پر بسیار گوئی کا شکار نہیں ہے اس کی غزلیں پانچ سات شروں پر مشتمل ہوتی ہیں وہ ایسا شاعر نہیں ہے جو اٹھاون قافیوں میں ستاون اشعار کی غزل کہنے بیٹھے اور خوش وخرم وامن جھاڑتا اٹھے اور پھر اگلی فرصت میں بزرگوں کی روح کو ؟؟ پہنچانے کا فریضہ انجام دینے بیٹھ جائے اسے ایک غزل سے دوسری غزل تک پہنچنے میں کبھی ؟؟ مہینے لگ جاتے ہیں۔ اس کی غزل چھوٹے چھوٹے تخلیقی وقفوں یا تخلیقی لمحوں کی رنگین داستاں ہوتی ہیں جو شعر درشعر نئی آگاہیوں نئی بصیرتوں نئی تخلیقی مسرتوں کی ایسی تصویریں فراہم کرتی ہیں کہ زہن و دل ایک عجب سرشاریت، ایک عجب جمالیاتی آسودگی محسوس کرتے ہیں زندگی کی مثبت اقدار پر یقین رکھنے والے اس شاعر کے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ اس کی تخلیقات کے لیے سامعین اور قارئین دونوں میسر ہیں اس کے باوجود کہ اس کی فنکارانہ (Totality) داخلی رومانیت میں ہے لیکن یہ رومان انگریزی قاری کے لیے درد سر نہیں بنتی، افسانوی فضا سازی ماورائیت کی جمالیاتی حیرت انگیزیوں اور مابعد الطبیعاتی تجربوں کو شفاف لفظوں کا آئینہ دینا اقبال اشہر کی اہم خوبی ہے اس تناظر میں یہ اشعار ملاحظہ کریں۔
پچھلے پہر کھل گئی تھی مجھ میں عجب چاندنی سی
ایسا طلسمی کہاں تھا پہلے تصور تمہارا
جاگا ہوا سا تلاطم کھویا ہوا سا کنارا
میرے لیے اک تخیر تیرے لیے اک نظارا
کسی دوا نے سے کم نہیں ہے یہ میرے اندر کا آدمی
ادھر میں پھولوں کی چھائوں میں ہوا ادھر وہ کانٹوں پہ چل رہا ہے
اپنی آواز بھی گراں گزرے
اتنی شدت سے سوچنا چاہوں
اوروں کا درد بانٹ یا اپنا طواف کر
پرچھائیوں کے بیچ کھڑا سوچتا ہے کیا
ہر سچے فنکار کی کچھ اپنی ہی نفسیات اپنی ہی جمالیات ہوتی ہے جو کسی نہ کسی راستے کی تخلیقات میں در آتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا کہ فنکار کو اپنے تصرفات اور تکلفات کے بارے میں بظاہر پوری طرح باخبری نہیں ہوتی۔ یہ کیفیت پوری طرح داخلی اور وجدانی ہوتی ہے اسے احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ اس کی تخلیقات کسی خاص جمالیاتی تجربے کا
پھیلائو ہوتی جارہی ہیں لیکن اس کی باطنی شخصیت ضمام خٰال کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھیل دیتی اور کھینچی رہتی ہے یہ خصوصی جمالیاتی تجربے اقبال اشہر نے روشنی کے حوالے سے ہم تک پہنچائے ہیں دراصل اس کی فنکارانہ شخصیت خیر کی تمنائی ہے جس کے اظہار اور فضا سازی کے لیے روشنی ایک مضبوط استعارہ اور موزوں پیکر ہے اسی لیے اس کی بیش تر غزلوں کے بیش تر اشعار روشنی کی جمالیات سے مملو ہیں روشنی، جو دن کو پدرانہ شفقت اور رات کو مادرانہ مہربانیوں کا استعارہ ہے۔ روشنی، جو ظاہر میں سچائیوں کی ترجمان اور باطن میں خیر کی وسعی صورت ہے روشنی، جو تب و تاب حسن کی نرمی ہے روشنی جو گرمی کی عشق پہلی اور آخری شناخت ہے روشنی، جو کائنات کی وجودی حیثیت کا دعوہ ہے غرض روشنی کے احساس
کی جمالیاتی صورتوں نے اقبال اشہر سے کیسے کیسے اشعار کہلوائے ہیں اور وہ ان تخلیقی تجربوں میں کتنا کامیاب ہے آپ دیکھ سکتے ہیں چند شعر یہاں نقل کرتا ہوں ملاحظہ کریں:
آرزو ہے سورج کو آئینہ دکھانے کی
روشنی کی صحبت میں ایک دن گزارا ہے
بے چراغ راتوں میں یاد آنے والا تو
دھوپ کی طرح مجھ میں پھیل جانے والا تو
بے سبب تو نہیں جلے یہ چراغ
اس نے شاید ہمیں پکارا ہے
تارے بھی نمائش کا ہنر بھول گئے ہیں
جس دن سے مرے چاند کی تحریر پڑھی ہے
وہ روشنی سے آج کل خفا تو ہے
عجب سہی یہ زاویہ نیا تو ہے
تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھائوں
ان چراغوں نے مری نیند اڑا رکھی ہے
پیشانیوں کے چاند کہاں چھوڑ آئے ہم
سینوں کی روشنی تو رقیبوں کے گھر گئی
تاریک سمندر میں گزارے ہیں کئی سال
تب جا کے مجھے نور کی ایک بوند ملی ہے
یہ نور کی بوند جو اقبال اشعر کے دامن میں آئی ہے اس کا حجم کتنا پھیلے گا اس کا کچھ کچھ اندازہ ابھی سے لگایا جاسکتا ہے یہ خوب صورت کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کی معنوی دلکشی نے آپ کو کتنا متاثر کیا اس کا اظہار خطوط کے ذریعے کرسکتے ہیں۔
رئوف رضا