آلوک ایک روشن خیال شخص ہے جس کے اندر شاعری ہر وقت جگمگاتی رہتی ہے۔ اس کی اینرجی اور اشتیاق دیکھ کر اکثر حیرت ہوتی ہے۔ وہ ایک اچھے شعر اور شاعر کے گرد یوں گھومتا ہے جیسے جلتے بلب کے گرد پتنگے گھومتے ہیں، سر پھوڑتے ہیں، نہ جل پاتے ہیں، نہ فرار ہوتے ہیں۔ اس کی لگن دیکھ کر بے ساختہ دعائیں دینے کو جی چاہتا ہے۔ الفاظ کا چناؤ اور آہنگ اسے کچھ وراثت میں ملا ہے، کچھ اس کی اپنی لاک ہے۔ اپنی عمر سے بڑی بات کرتا ہے آلوک۔۔
یہ جسم کیا ہے کوئی پیرہن ادھار کا ہے
یہیں سنبھال کے پہنا یہیں اتار چلے
غزل کے انداز میں یہ شعر کہنا واقعی بڑے صفت کی بات ہے، اس میں ایک انداز بھی ہے اور نغمگی بھی
سالا پانسا ہر دم الٹا پڑتا ہے
آخر کتنا چلوں سنبھل کر بم بھولے
گھر سے دور نہ بھیج مجھے روٹی لانے
سات گگن ہیں سات سمندر بم بھولے
صرف غزل میں ہی نہیں، آلوک نے شاعری کی دوسری فارمس میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ جیسے غزل میں ایک خاص مزاج کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح دوہے میں ایک خاص طبیعت کا ہونا بہت ضروری ہے
آنکھوں میں لگ جائیں تو، ناحق نکلے خون
بہتر ہے چھوٹے رکھیں، رشتوں کے ناخون
یہ تعارف لکھتے ہوئے میں واقعی کسی طرح کی سینیرٹی سے کام نہیں لے رہا ہوں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ آلوک نے کئی جگہ حیران کیا ہے مجھے۔ اس کی سیدھی سادی باتیں سن کر مجھے نہیں لگتا تھا کہ اس ٹھہری ہوئی سطح کے نیچے اتنی گہری ہلچل ہے۔ اس کی نظمیں اس بات کی گواہ ہیں
محبتوں کی دکاں نہیں ہے
وطن نہیں ہے، مکاں نہیں ہے
قدم کا میلوں نشاں نہیں ہے
مگر بتا یہ کہاں نہیں ہے
آلوک ایک روشن افق پر کھڑا ہے، نئے افق کھولنے کے لئے، آمین!