دور تک پھیل گئی سب کی زباں تک پہنچی
بات تب جا کے مرے وہم وگماں تک پہنچی
پیاس نے مجھ کو تو بس مار ہی ڈالا تھا مگر
کشش زیست مری آب رواں تک پہنچی
خاک جب خاک سے ٹکرائی تو اک شور اٹھا
جان جب جان سے گزری تو اماں تک پہنچی
دھڑکنو میں تری آمد سے وہ جھنکار ہوئی
لب کھلے بھی نہیں اور بات بیاں تک پہنچی
میری آنکھوں سے مرے خواب چرانے والا
پوچھتا ہے کہ مری نیند کہاں تک پہنچی
کوئی تو شئہ تھی علینا جو ان آنکھوں سے چلی
دل میں پیوست ہوئی اور رگ جاں تک پہنچی