جو ہے وہ کیوں ہے اور جو نہیں ہے وہ کیُوں نہیں
یہ جان لُوں ابھی مجھے ایسا جُنوں نہیں
میں کیا ہُوں اور کیوں ہوں، مجھے اس سے کیا غرض
اس سے بھی کیا غرض مجھے ہُوں بھی کہ ہُوں نہیں
میں چاہتا ہوں موت جو آئے مری طرف
میں موت کو گلے سے لگا لوں مرُوں نہیں
جینے کی آرزو مجھے لے آئی ہے یہاں
میں ورنہ ایک پل بھی یہاں پر رہوُں نہیں
جس پر ہے کائنات کا ہر راز آشکار
وہ کہہ رہا ہے ہاں، تو میں کیسے کہُوں نہیں
مومن میاں یہ کام نہیں ہے یہ عشق ہے
کیا سوچ میں پڑے ہو کرُوں یا کرُوں نہیں
Load/Hide Comments