مجلسِ فخرِ بحرین کی طرحی نشست بیادِ مجروح سلطان پوری
احمد امیر پاشا
اُردو شعرو ادب کاکلاسیکی اور تجرباتی حسن برقرار رکھنے کے لئے فی زمانہ طرحی نشستوں کا انعقادبہت اہم ہو گیا ہے ،اس کی اہمیت تربیتی نقطہ ِ نظرسے تو اور بھی زیادہ ہے۔مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اورصنفِ شعر گوئی میں مشق و ریاضت اور نشوو نماکے ضمن میں تو طرحی نشستوں کا اہتمام ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔بانی و سرپرست اعلیٰ ، مجلسِ فخرِ بحرین محترم شکیل احمد صبر حدی نے اس حوالے سے تنظیمی سطح پر منصوبہ بندی کرتے ہوئے طرحی نشستوں کے انعقاد کو ادبی ماحول میں تازگی اور شعرائے کرام کی خدا داد صلاحیتوں کو اجالنے کے لئے ایک مئوثر ذریعے کے طور پر اختیار کیا جس کا نتیجہ مملکت بحرین کے ادبی ماحول میں ایک خوشگوار تازگی کی صورت میں رُونما ہوا، اس پر مستزاد مجلسِ فخرِ بحرین کا انفرا سٹرکچر(بنیادی ڈھانچہ) ہے جس میں نشست گاہ سے لیکر ان بقیہ تمام ضروری لوازمات کی فراہمی ہے جن سے کسی بھی ادبی تنظیم کی کامیابی کے جملہ امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔
طرحی نشستوں کے انعقاد کے حوالے سے جناب شکیل احمد صبرحدی کا نقطہ نظر زیادہ وسیع اور ترقی پسندانہ ہے۔یہ بجا ہے کہ اُردو محض مسلمانوں کی زبان نہیں ہے،غیر مسلم شعراء اور ادباء کا کردار اس زبان کی ترقی کے لئے ناقابلِ فراموش ہی نہیں قابلِ تعریف بھی ہے ،ان غیر مسلم ادباء نے اہنی کاوشوں سے بر صغیر پاک و ہند میں ایک لسّانی اور ثقافتی یگانگت پیدا کر نے کے لئے گرانقدر کوششیں کی ہیں جن سے اردو کے حسن و آب و تاب میں دو گنا اضافہ ہوا۔مجلس فخرِ بحرین نے اپنے عالمی مشاعروں کے انعقاد کے نظریاتی پہلوکو زیادہ وسعت دی۔ہر سال منعقد ہو نے والے ان ترتیب وار مشاعروں کا ایک متوازن ضابطہ طے کیا گیا جس کے مطابق ایک سال اردو کے کسی مسلم شاعر کی یاد میں عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے تو اگلے سال کسی غیر مسلم اردو شاعر کی یاد میں عالمی مشاعرہ منعقد ہوتا ہے،ان عالمی مشاعروں کا ایک روشن علمی پہلو یہ بھی ہے کہ اس موقع پر مذکورہ شاعر کے حوالے سے معروف دانشوروں ، اساتذہ اردو اور نا قدین فن کے قیمتی مضامین پر مشتمل ایک کتاب بھی شائع کی جاتی ہے جس کو عالمی سطح اعلیٰ علمی حلقوں میں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔اس سے قبل مجلس فخرِ بحرین،اُردو کے نامور شعراء ، شہریار، فراق گورکھپوری،عرفان صدیقی،پنڈت آنند نرائن ملا، خلیل الرحمٰن اعظمی اور پنڈت برج نرائن چکبست کی یاد میں یاد گار عالمی مشاعرے منعقد کر چکی ہے اور ان نابغہِ روزگار شعراء کے کلام و اسلوب اور
زندگی پر سیمینار منعقد کرا کے ان سے حاصل شدہ قیمتی علمی مواد پر مشتمل ضخیم کتا بیں بھی شائع کر چکی ہے، یہ عالمی مشاعرے اور ان سے وابستہ شعراء کے بارے میں شائع شدہ یہ کتب عہدِ حاضر کی اردو تاریخ و ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
سال 2018ء کا عالمی مشاعرہ اردو کے معروف غزل گو شاعر اور گیت نگار مجروح سلطان پوری کی یاد میں منعقد ہو گا ۔اس سے قبل 27جولائی 2018ء کو مجروح سلطان پوری کے حوالے سے ہی پہلی طرحی نشست کا انعقاد مجلس لائیبریری ہال سند(بحرین )میں ہوا تھا۔اسی سلسہ کی دوسری طرحی نشست 25اکتوبر2018ء بروز جمعرات ، معروف دانشور ، اور فاضل استاد و سکالر عربی ادب محترم ڈاکٹر شعیب نگرامی کی صدارت میں اسی مجلس لائیبریری ہال سند میں مننعقد ہوئی،اس مرتبہ طرحی نشست کے لئے مجروح سلطان پوری کے دو مصرعوں کا انتخاب کیا گیا تھا ،پہلا مصرع تھا، اُٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح، جبکہ دوسرا مصرعہ تھا، کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے۔اس طرحی نشت کے مہمانا نِ اعزاز جناب عزیزہاشمی اور محترم ظفر بیگ تھے۔اس نشست کے انتظام و انعقاد کے پس پردہ بحرین کے معروف شاعر جناب رخسار ناظم آبادی کی محنتوں کو دخل خاص حاصل تھا۔خوبصورت مزیّن ہال اور عمدگی سے مرتب نشست گاہ کے علاوہ اس یاد گار طرحی نشست کا اصل رومان مجلس فخرِ ِ بحرین کے منتظم ، معروف مئولف،روزنامہ جسارت کراچی کے کالم نگار، جناب خرّم عباسی کی نظامت تھی۔ صدرِ نشست اور مہمانانِ اعزاز سے التماس و سپاس کے بعد انہوں نے اس خوبصورت نشست کا تعارف پیش کیا۔اپنے تعارفی کلمات میں جنابِ خرّم عباسی نے فروغِ اُردو کے حوالے سے مجلس فخرِ بحرین کی عالمی سطح پر ادبی اور اشاعتی کاوشوں کے تناظر میں ،سلیم احمد کی معروف نظم ــ’’ مشرق ہار گیا ‘‘ پڑھی، اس نظم نے سامعین پر سحر طاری کردیا ۔مذکورہ نظم میں مشرق کی ذہنی شکستہ حالی اور سماجی زوال کے پیش منظر میں اردو ادب و ثقافت کی ترقی کے لئے مجلس کی سرگرمیوں اور جناب شکیل احمد صبرحدی کی مساعیِ جمیلہ کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجلس فخرِ بحرین مشرق کی علمی اور ثقافتی آسودگی کے لئے جناب شکیل احمد صبر حدی کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے۔
اپنے اظہارِ تشکّرمیں سرپرست و بانی مجلسِ فخرِ بحرین جناب شکیل احمد صبرحدی نے آنے والے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بیاد مجروح سلطان پوری اس سال منعقد ہونے والے سالانہ مشاعرے سے منسلک بمبئی یونیورسٹی میں منعقدہ کامیاب سیمینارکی مختصر روداد شرکائے نشست کی نذر کی۔انہوں نے اس سیمینار میں شریک مختلف یونیورسٹیوں کے ڈاکٹرزاور شعبہ اُردو کے صدورِ محترم کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے عزیز نبیل اور آصف اعظمی کی خدمات کی تعریف کی ۔ اس نشست کے انعقاد کے لئے انہوں جناب رخسار ناظم آبادی اور جناب خرّم عباسی کی کاوشوں کو بھی سراہا۔ جناب شکیل احمد صبرحدی کے اظہار خیال کے بعد اس نشست کا شعری دور شروع ہوا جس میں مہمان شعراء نے اپنے خوبصورت کلام سے حاضرین سے خوب زرِدادو تحسین سمیٹا..
اپنے صدارتی کلمات میں محترم ڈاکٹر شعیب نگرامی نے اس کامیاب شعری نشست کے انعقاد پر جناب شکیل احمد صبر حدی اور مجلس. کے تمام منتظمین کومبارکباد پیش کی، بایں ہمہ انہوں نے اس نشست میں پڑھے گئے شعرائے کرام کے عمدہ کلام کی بھی تعریف کی.
٭٭٭٭٭
تصاویری جھلکیاں
منتخب اشعار
،شعرائے کرام کے کلام سے منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں
جناب اسدؔ اقبال
؎ دل جُو کوئی نہیں مرے دلدار کی طرح
غصہ بھی جس کی بات میں ہے پیار کی طرح
شیریں زباں تو لاکھ زمانے میں ہیں مگر
گفتار کس کی ہے تری گفتار کی طرح
جناب سعید سعدیؔ
؎ میسر آتی ہمیں فرصتِ خیال اگر
تمہارے حسن کو اشعار میں سمو دیتے
انا پرست بلا کے تھے ہم مگر سعدیؔ
انا پرست ہی رہتے تو اس کو کھو دیتے
جناب عدنان تنہاؔ
؎ وہ ایک روز چھوڑ کے مجھ کو چلا گیا
میں دیکھتا رہا درو دیوار کی طرح
پھر پیش آ رہے ہو مرو ت سے کیوں میاں؟
پھرشعبدہ نیا کوئی ہر بار کی طرح
جناب ریاض شاہدؔ
؎ چہرہ ہے صادقین کے شہکار کی طرح
ازبر ہے مجھ کو میرؔ کے اشعار کی طرح
آیا ہے ماہِ چاردہم جب سے زیست میں
ہر دن گزرتا ہے مرا تہوار کی طرح
جناب طاہر عظیمؔ
؎ ہمارے بس کا نہیں ہے یہ کاروبارِ جہاں
ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو سب ڈبو دیتے
یہ نفرتیں تو تمہارے مفاد میں بھی نہیں
کسی کے دل میں محبت کا بیج بو دیتے
جناب اقبال طارقؔ
تمھارے ذکر سے یہ طے ہوا ورنہ
کہیں بھی راہوں میں ہم یار خود کو کھو دیتے
کوئی گلاب چمن میں اگر نہ تھا طارق
تو کوئی خار ہی سہرے میں تم پرو دیتے
جناب احمد امیرؔ پاشا
؎ اس کو منا کے دل کو بہت راحتیN ملیں؎
آتا ہے سال بعد وہ تہوار کی طرح
اپنی شکست پر کبھی رویا نہیں وہ شخص
عادی تھا دھوپ چھائوں کا اشجار کی طرح
جناب رخسارؔ ناظم آبادی
؎ طوفان میں تو کشتی و پتوار کی طرح
بس حوصلہ تھا ساتھ مدد گار کی طرح
تحریر کردہ دکھ بھرا کردار ہے جسے
ہنس کر نبھا رہے ہیں اداکار کی طرح
جناب خورشید علیگ
؎ نہ ہوتا اس کا سہارا تو ہم بھی رو دیتے
اُمڈتے آنسو قبا کو مری بھگو دیتے
زہے نصیب کبھی کاش وہ گھڑی آتی
کہ میرے اشکِ ندامت گناہ دھو دیتے
جناب احمد عادل
چاہا ہے تم کو یوں کہ تمہیں بھی خبر نہ ہو
سوچا ہے تم کو ان کہے اشعار کی چرح
کہنے کو کوئی بندو سلاسل نہیں مگر
سب ہیں فصیل جاں میں گرفتار کی طرح
جناب ظفر بیگ
جو دیکھتے کھلی آنکھوں سے حشر کا منظر
حواس والے بھی ہوش و حواس کھو دیتے
ظفر ہمارے بھی کاش ایسے رہنما ہوتے
وطن میں امن و محبت کا بیج بو دیتے
بلا شبہ کم عرصے میں مجلس نے عالمی سطح پر اپنے آپ کو منوایا ہے۔ اور بہترین مشاعرے اس کے حصے میں آئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قطر کیطرح بحرین میں بھی شعراء مشاعروں میں شامل ہونا اپنے لئے اعزاز سمجھیں گے۔