پنڈت ہری چند اختر
پیدائش: 15 اپریل 1901، بمقام ہوشیارپور پنجاب انڈیا
وفات:دہلی ، انڈیا سنہ 1958
مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کی جانب سےاپنے حالیہ ساتویں عالمی مشاعرہ بیادِ مجروح سلطانپوری کے کامیاب انعقاد کے بعد مجلس نے اپنے آئندہ مشاعرے کے لئے،،پنڈت ہری چند اختر،، کے نام کا انتخاب کیا ہے،، پنڈت ہری چند اختر،،کے نام سے منسوب عالمی مشاعرہ ، ،بیادِ پنڈت ہری چند اختر،، سے قبل رواں سال پورے جوش و جذبے کے ساتھ ،، پنڈت ہری چند اختر،، کے طرحی مصرعوں پر مشتمل شعری نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا اس سلسلے میں مجلس اپنی پہلی شعری نشست کا جلد اعلان کرے گی.
،، مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو،،پنڈت ہری چند اختر کے مختصر تعارف کے ساتھ اپنے آئندہ مشاعرے کا اعلان کرتی ہے جس میں امید ہے مجلس کے سبھی ممبران کا تعاون حاصل رہے گا
بہت شکریہ
شکیل احمد صبرحدی
بانی و سرپرست
،، مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ ،،
مملکت البحرین
*پنڈت ہری چند اختر *
پنڈت ہری چند اختر کی ولادت 15 اپریل،19٠١ میں صاحباں گاؤں ، ھوشیار پور مشرقی پیجاب (بھارت) میں ھوئی۔ دسواں درجے میں کامیابی کے بعد منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد جامعہ پنجاب سے انگریزی میں ایم ۔اے کی سند حاصل کی۔کچھ عرصے پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں ملازم رھے۔ایک طویل عرصے تک لالہ کرم چند کے جریدے “پارس” کے مدیر بھی رھے۔ ان کے اداریوں میں ندرت اور زبان کی چاشنی ھوتی تھی ۔ کہ لوگ اس کو محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ ہری چند اختر کی غزلیات کا لہجہ روایتی مزاج کا تھا۔ لیکن ان کی شعری فضا میں منفرد نوعیت اخترعات کا ساختیہ تشکیل پاتا ھےاور ان کی شعری جمالیات میں رجائیت کا احساس ھوتا ھے۔ پنڈت ہری چند اختر اردو کے ان شعرا میں شامل ہیں جو متحدہ پنجاب کے معروف شعرا میں شمار کئے جاتے تھے۔اپنی زندگی کا بڑا حصہ لاہور میں گذرا۔ ان کی بذلہ سنجی، فقرے بازی، ہزل گوئی، اور اردو غزل ان کی محفلی اور ادبی شناخت بنی۔ انھیں علم العروض میں بھی مہارت حاصل تھی ۔فارسی ، اردو اور انگریزی گفتار اور تحریر میں ملکہ حاصل تھا۔ ان کا روزگار صحافت رہی۔ ان کی باتیں آج بھی ادبی محافل میں بھی یاد کی جاتی ہیں۔ وہ اپنے مزاج میں سیکولر انسان تھے۔ لاہور میں رہتے ہوئے وہ کبھی ترقی پسندتحریک یا حلقہ ارباب ذوق کا حصہ نہیں بنے۔ وہ دوستوں کے دوست یا ” یار بادشاہ” قسم کے آدمی تھے۔بہت بذلہ سنج انساں تھے۔ رشید حسن خاں نے لکھا ھے”پنڈت ہری چند اختر اپنے زمانے کے مشہور شاعر اور ادیب تھے۔ انھوں نے ایک بار ایک نئے لکھنے والے سے کہا تھا: “یہ تو بہتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھنا ہے، لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے”۔ کیسی اچھی بات کہی تھی! “ایک دفعہ ہری چند اختر جوش صاحب سے ملنے گئے، جاتے ہی پوچھا، “جناب! آپ کے مزاج کیسے ہیں؟“
جوش صاحب نے فرمایا، “آپ تو غلط اردو بولتے ہیں، یہ آپ نے کیسے کہا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں، جب کہ میرا تو ایک مزاج ہے نا کہ بہت سے مزاج۔“
کچھ دن بعد اختر کی پھر جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے فرمایا، “ابھی ابھی جگن ناتھ آزاد صاحب کے والد تشریف لائے تھے۔“
اس پر اختر صاحب نے فرمایا، “کتنے؟“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور دلچسپ واقعہ بھی ان کے دوست سناتے ہیں “ایک دفعہ محمد دین تاثیر نے ہری چند اختر سے پوچھا۔
“یار پنڈت، سُنا ہے تُو حفیظ( جالندھری) کا شاگرد ہے۔”
اختر صاحب نے کہا “ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔” تاثیر نے برجستہ کہا۔ “میں تو تیری بڑی عزت کرتا تھا”
دہلی کے ایک ہند و پاک مشاعرے میں عبد الحمید عدم پنڈت ہری چند اختر کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ گئے اور پوچھنے لگے: ” پنڈت جی مجھے پہچانا؟ میں عدم ہوں۔
اختر نے عدم کا موٹا تازہ جسم دیکھتے ہوئے مسکرا کر اپنے مخصوص انداز میں کہا:
” اگر یہی عدم ہے تو وجود کیا ہوگا” ۔۔۔۔۔
ہری چند اختر کا ایک واقعہ اور سنیے ۔۔۔”کچھ نقاد حضرات اردو کے ایک شاعر کی مدح سرائی کر رہے تھے، ان میں سے ایک نے کہا۔
“صاحب کیا بات ہے، بہت بڑے شاعر ہیں، اب تو حکومت کے خرچ سے یورپ بھی ہو آئے ہیں۔”
ہری چند اختر نے یہ بات سنی تو نہایت متانت سے کہا۔
“جناب اگر کسی دوسرے ملک میں جانے سے کوئی آدمی بڑا شاعر ہو جاتا ہے تو میرے والد صاحب ملکِ عدم جا چکے ہیں لیکن خدا گواہ ہے کہ کبھی ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکے۔”۔۔۔۔۔ ان کو بات سے بات نکلنا آتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
بس وہ ادب سنتے ،پڑھتے اور لکھتےتھے۔ لاھور کی ادبی فضا میں ان کی شمولیت دکھائی دیتی ھے۔ ان کی فیض احمد فیض سے بڑی دوستی تھی۔ ہری چند اختر نے فیض کی شاعری پر ” پیروڈی” بھی لکھی۔ ان کے حلقہ احباب میں احسان دانش، دیوند ستھیارتھی، صوفی تبسم، راجند سنگھ بیدی، تصدق حسین خالد، میلہ رام وفا،حفیظ ھوشیار پوری، گور بچن سنگھ، اعجاز حسن بٹالوی، احمد ندیم قاسمی، راما نند ساگر،کرشن گوپال مانگٹالہ، کہنیا لعل کپور، راج ہنس ببر، پرتھوی ناتھ شرما، سریند سنگھ دگل، پرکاش پنڈت، فکر تونسوی، اور مخمور جالندھری وغیرہ شامل تھے۔ ان کی غزلیات کا بیاض “کفر وایمان” کے نام سے، دہلی ستا پال نے 1960 میں چھپا۔ اختر صاحب نی بچوں کے لیے ایک ڈرامہ” جل دیوتا ” بھی لکھا تھا۔اختر صاحب نے ایک نظری کتاب ” حالی پانی پتی” بھی لکھی ھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ دہلی چلے گئے اور وہیں یکم جنوری،1958 میں جہان فانی سے منہ موڑا۔
ہری چند اختر نے نعت بھی لکھی ۔
سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیں
لیجئے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہم
نام پاک احمد مرسل سے ہم کو پیار ہے
اس لئے لکھتے ہیں اختر نعت میں اشعار ہے
پنڈت ہری چند اختر کی غزل ملاحظہ کریں:
آباد اگر نجد کا ویرانہ نہیں ہے
مجنوں کو بُلا لاؤ، وہ دیوانہ نہیں ہے
ہے شمعِ وفا محفلِ اُلفت میں ضیا ریز
اس شمع پہ لیکن کوئی پروانہ نہیں ہے
یہ عقل کی باتوں میں تو آئے گا نہ ہرگز
عاشق ترا ہشیار ہے دیوانہ نہیں ہے
ساقی تری محفل ہے مئے ناب میں غرقاب
اور میرے لئے ایک بھی پیمانہ نہیں ہے
کافر بھی مسلمان بھی شیدا ہے بُتوں پر
وہ کون سا دل ہے جو صنم خانہ نہیں ہے
دو اشک ہی نکلے تھے کہ اُس شوخ نے ٹوکا
حضرت! یہ مرا گھر ہے، عزا خانہ نہیں ہے
مجھ کو نظر آتا ہے یہ عالم ہمہ تن نور
اِک ذرّہ یہاں حُسن سے بیگانہ نہیں ہے
ہوتا ہے اس آغاز کا انجام بہت نیک
جو کعبہ نہ بن جائے وہ بُت خانہ نہیں ہے
ہر رنگِ تغزّل مرا معمول ہے اختر
کم ظرف مرے شعر کا پیمانہ نہیں ہے
ہری چند اختر
**
ذہن رہنِ قومیت، احساس محبوسِ وطن
واے نادانی قفس کو آشیاں سمجھا تھا میں
یاتھ شل ہوتے رہے، بہرِ دعا اُٹھتے رہے
تیری بے مہری کو اپنا اِمتحاں سمجھا تھا میں
سُستیٔ ایماں کا کچھ باعث ہے ورنہ ایک دِن
آتشِ نمرود کو بھی گُلستاں سمجھا تھا میں
آہ سوداگر ہی تھے وہ دوست بھی اختر جِنھیں
بے نیازِ کاوِشِ سود و زیاں سمجھا تھا میں
تو میرے اعمال کا پابند نکلا حشر میں
اے خدا، میرے خدا، تجھ کو خدا سمجھا تھا میں