گلِ اردو کی مہک
”شاعری عطیہ خداوندی ہے۔“ ”شعر دل سے اٹھتا ہے اور دل میں تروتازہ ہوجاتا ہے۔ شعر کو سن کر دل جھومتا ہے اور روح وجد کرتی ہے۔“ روح کو تڑپانا اور قلب کو گرمانا شاعری کی جادو گری ہے۔ (خواجہ الطاف حسین حالی ”مقدمہ شعر وشاعری“ )
اُردو مُشاعِرے مختلف ارتقائی ادوار سے گزرے ہیں۔ انہوں نے ہندی کوی سمّیلنوں اور عربی مشاعروں کی کوکھ سے جنم لیا ہے .عرب معاشرے میں اشعار پڑھنے اور سنانے کو ”انشاد“ اور ”نشید“ کہتے ہیں۔ اس کا مفہوم گانا ہی ہوتا ہے۔ قدیم مجالس شعر میں شعراءاپنا کلام گا کر سنایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ بعد تک جاری رہا اور بنی اُمیہ اور بنی عبّاس کے دربار خلافت میں شعراءگا کر ہی اشعار سنایا کرتے تھے۔ بعض خوش گلو شعراءنے درباروں میں بڑی مقبولیت اور عوام میں بڑی ؟؟؟ حاصل کرلی تھی۔ مثال کے لیے الدّارمی حطیہ اور اسحق موصلی وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ ان سب ہی مُنابع کے اثرات قبول کرتے ہوئے اردو کے مشاعرے انہیں پیش رواوں کے نقشِ قدم پر چلتے رہے ہیں۔ زمانہ گُزر نے پر اُن کی اپنی خاص فضا، خاص ماحول، اور خاص ؟؟ ازم ایسے متعین ہوگئے کہ اُردو کے مشاعرے اپنے پیش رو کوی سمّیلنوں اور مشاعروں کے خوشہ چیں ہونے کے باوجود کچھ اور ہی چیز بن گئے۔ عصر حاضر میں کچھ مغربی اثرات بھی قبول کیے گئے۔ وقت کی گھڑی کی سوئیوں نے پورا چکر مکمل کرلیا اور جب ہندی کوی سمّیلنوں کی نشاةِ ثانیہ ہوئی تو وہاں بھی اُردو مشاعروں کی پیروی ہونے لگی۔ ہمارے مشاعروں کی تاریخ اسی ارتقائی عمل کی تاریخ ہے۔ تبدیلیاں بہت ہی دبے پاﺅں آرہی ہیں ۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس ارتقائی سلسلے کے سنگِ میل باقی رہ گئے ہیں۔ مشاعرہ اُردو زبان وتہذیب کی ایک ایسی خوبصورت روایت ہے جس کی مثال آج دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب اور ثقافت میں بمشکل ہی ملے گی۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک شاعری قلب وذہن پر گزرنے والی ہر واردات اور کیفیت کے اظہار اور ابلاغ کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔
کہتے ہیں کہ عمر خیام کی ایک رباعی سن کر ایک بزرگ میراں سید بھیک مرغ بسمل کی طرح تڑپ اٹھے تھے جب کہ عہد جدید میں فرانس کے ایک مشہور ومعروف شاعر یوجین پوتیے کی نظم ”انٹرنیشنل“ نے جمہوری انقلاب کو کامیابی سے سرفراز کیا۔ اقبال کی شاعری بھی اس حوالے سے ایک خاص مقام کی حامل ہے۔
ایسے تو مشاعرہ اُردو شاعروں سے اور اِسی لئے برصغیر سے مخصوص رہا ہے لیکن آج جب کہ اُردو بولنے والے ملکوں ملکوں پھیل چکے ہیں، اُن کا یہ محبوب اجتماع بھی بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اپنے درخشاں ماضی کی روشن اور تابندہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے
”مجلس فخرِ بحرین“ کے زیر اہتمام عالمی مشاعرے شہریار، فراق اور عرفان صدیقی پوری آب وتاب کے ساتھ انعقاد پذیر ہو کر کامیابیوں اور شہرت سے ہمکنار ہوئے ۔ ”مجلس فخرِ بحرین“ کے زیر اہتمام ان عالمی مشاعروں کے انعقاد کا سلسلہ پابندی کے ساتھ جاری وساری ہے۔ یہ کامیاب اور بامقصد عالمی مشاعرے اب اردو دنیا کا اثاثہ اور تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ مشاعرے جہاں اہل بحرین کی ادب شناسی، سخن فہمی، اعلیٰ شعری ذوق اور تہذیبی شعور کا مظہر اور آئینہ دار ہیں وہیں امن وآشتی اور انسانی بھائی چارے کے فروغ کا انتہائی موثر اور کارگر ذریعہ بھی ہیں ۔ مجلس فخرِ بحرین براۓ فروغ اردو نے اس بار یہ مشاعرہ، اردو شعروادب کی ایک اور بہت اہم اور قابلِ ذکر شخصیت پنڈت آنند نرائن ملّا کے نام ١٨فروری مملکت بحرین کے کلچرل ہال نیشنل میوزیم کمپلیکس میں منعقد کیا ، جس میں حسب روایت مملکت بحرین کے نمائندہ شعرائے کرام کے علاوہ ہندوستان اور گلف کے دیگر ممالک کے منتخب شعرائے کرام نے اپنے زور کلام سے حاضرین کو محفوظ کرتے ہوئے امن ومحبت کی شمعیں فروزاں کیں۔ اس عظیم الشان مشاعرے کو یادگار بنانے کے لیے ”مجلس فخرِ بحرین“ کے روح رواں اور معروف سماجی شخصیت شکیل احمد صبرحدی کی نگرانی میں اس موقعے پر پنڈت آنند نرائن ملّا صاحب کی شخصیت اور فن پر ایک اہم کتاب آنند نرائن ملّا ، حیات و کمالات کے نام سے شائع کی گئی ہے۔جس کی ترتیب و تدوین کا کام معروف صحافی و قلم کار آصف اعظمی اور مجلس کے مشیرِ خاص عزیز نبیل نے انجام دیا ہے.ایک خوبصورت مجلّہ بھی شائع کیا گیا۔
اس یادگار مشاعرہ کا باقاعدہ آغاز مجلسِ فخرِ بحرین کے مشیرِ خاص ،سالانہ دستاویز کے مدیر قطر میں مقیم شاعر جنابِ عزیز نبیل نے کیا۔مختصر گفتگو کے بعد انہوں نے تمام مہمان شعراء کو اسٹیج پر دعوت دی۔ صدرِ مشاعرہ عزت مآب ایڈووکیٹ مجید میمن (ممبر آف پارلیمنٹ، انڈیا) اور مہمانِ خصوصی جناب اوم پرکاش (سیکنڈ سیکرٹری سفارت خانہ ہند )، محترم پروفیسر شمیم جیراج پوری (سابق وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی) اور محترم آصف اعظمی (معروف صحافی، ڈائریکٹر آئیڈیاک) ، محترم پروفسیر وسیم بریلوی محترم شین، کاف نظام،ناظمِ مشاعرہ،محترم انور جلال پوری،محترم پروفیسر شہپر رسول،محترم خوشبیر سنگھ شاد ،محترمہ علینا عترت ،محترم حامد اقبال صدیقی (ہندوستان ) ، محترم شاہد ذکی (پاکستان )،محترم اقبال قمر،محترم سہیل ثاقب ،محترم شوکت جمال (سعودی عرب ).محترم احمد عادل ،محترم رخسار ناظم آبادی،محترم ریاض شاہد اور محترم فیضی اعظمی (بحرین ) کا استقبال حاضرین نے تالیوں کی گونج میں کیا۔جناب ابوطلحہ ، سلمان صوپی اور محمد شہمیر نے گلدستوں سے شعراءکا استقبال کیا۔
بعد ازاں استقبالیہ کلمات کے لئے مجلس کے سرپرست محترم شکیل احمد صبر حدی کو دعوت دی گئی انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
پھر اک تجدیدِ الفت کا ترانہ لے کے آیا ہوں
میں کیا آیا ہوں اک گزرا زمانہ لے کے آیا ہوں
جی ہاں ! ایک بار پھر مجلس فخرِ بحرین اردو زبان اوراس کی شاعری سے محبت، الفت، عشق اورجذب و کیف کا ترانہ لے کر حاضر ہے ،یہ وہ ترانہ ہے جس کی ہرلےِ میں بحرین میں مقیم اردو سے جنون کی حدتک محبت کرنے والے اپنی شمولیت کا رنگ بکھیر رہے ہیں۔ خواب کو حقیقت کے دائرے میں داخل ہوتے دیکھ کر جو خوشی ہوسکتی ہے وہی خوشی آج مجھے محسوس ہورہی ہے۔ سال بھر جس مشاعرے کا خاکہ بنایا گیا، اسے ترتیب دیا گیا اورلمحہ لمحہ محسوس کیا گیا آج وہ مشاعرہ اس یقین اور اعتماد کے ساتھ آپ کے سامنے پیش ہے کہ گزشتہ تین مشاعروں کی طرح یہ مشاعرہ بھی آپ کے ذوق و شوق کی تسکین کا سامان بنے گا۔
مجلس فخرِ بحرین اپنی روایت کو برقرار کھتے ہوئے ، شہریار، فراق اور عرفان صدیقی کے بعد اردو شعروادب کی ایک اور بہت اہم اور قابلِ ذکر شخصیت پنڈت آنند نرائن ملّا کے نام اپنا چوتھا مشاعرہ ۶۱۰۲ءلے کرحاضر ہوئی ہے۔
پنڈت آنند نرائن ملّا دبستانِ لکھنو سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے بلند آہنگ شاعر کا نام ہے جس نے اپنی شاعری سے عظمتِ آدمیت، انسانی معاشرہ میں رواداری اور ہم آہنگی کی روایت ، محبت و یگانگت ، ماضی کی عظیم اور مثبت اقدار سے نسبت اوراپنی زبان کی حفاظت کا پیغام عام کیا۔ پنڈت آنند نرائن ملّا نظم اور غزل ہر دو اصناف میں یکساں مہارت رکھتے تھے، ان کی شاعری میں روایت کی روشنی بھی ہے اور جدید زمانے سے ہم آہنگ ہو کر ایک الگ راستہ بنالینے والی شاعری کا رنگ بھی ہے۔
مجلس کے لیے فخر کی بات ہے کہ عالمی مشاعرہ ۶۱۰۲ءکے موقع پر پنڈت آنند نرائن ملّا صاحب کی شخصیت اور فن پر ایک اہم کتاب آنند نرائن ملّا ، حیات و کمالات کے نام سے مجلس فخرِ بحرین کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔جس کی ترتیب و تدوین کا کام معروف صحافی و قلم کار آصف اعظمی اور مجلس کے مشیرِ خاص عزیز نبیل نے انجام دیا ہے۔ ہمیں یقین یہ ہے کہ مجلس کی جانب سے پیش کیا گیا یہ کام اردو ادب کی تاریخ میں ملّا شناسی اور ملّا فہمی کی سمت ایک سنگِ میل قرار دیا جائے گا۔
آپ کو یقینا یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اردو کے فروغ اور ترویج کے باب میں مجلس نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع تر کرتے ہوئے، گزشتہ برس دہلی میں آئیڈیا کمیونیکیشن کے تعاون سے پنڈت آنند نرائن ملّا پر ایک شاندارقومی سیمینار کا انعقاد کیاتھا جس کی پذیرائی علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے خوب ہوئی۔ مجلس کی پوری کوشش ہوگی کہ یہ سلسلہ سال بہ سال اسی طرح جاری رہے۔
قارئین ِ کرام! اپنی زبان اور اس کے ادب سے محبت زندگی کی علامت ہے۔ یہ محبت جب جذباتی اور زبانی سطح سے بلند ہوکر عملی سطح پراپنا نور بکھیرتی ہے تبھی زبان کا حق ادا ہوتا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اردو کے فروغ اور ترویج کی سمت قدم بڑھائیں اور کم از کم یہ کریں کہ اردو کتابیں، رسالے اور اخبارات خرید کر پڑھیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔
بزمِ ِ ادبِ ہند کے ہر گل میں ہے خوشبو
ملّا گلِ اردو کی مہک اور ہی کچھ ہے
استقبالیہ کلمات کے بعد عزیز نبیل اور آصف اعظمی کی مرتب کردہ کتاب آنند نرائن ملّا ، حیات و کمالات اور اس مشاعرے کے ساتھ شائع کردہ خوبصورت مجلہ کی رسم اجراء کی گئی اس موقع پر دیگر مہمان موجود تھے۔رسم کے بعد جناب اوم پرکاش (سیکنڈ سیکرٹری سفارت خانہ ہند ) کو مائیک پر دعوت دی گئی،انہوں نے اس شام کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کیا اس شام کے مہمانِ ہونے کو اپنی خوش نصیبی کہا ۔ بعدازاں عزیز نبیل نے آنند نرائن ملّا صاحب کی فن اور شخصیت پر بات کرنے کے لئے اس شام کے صدر عزت مآب ایڈووکیٹ مجید میمن کو دعوت دی
اپنے خطبہ صدارت میں ایڈووکیٹ مجید میمن صاحب نے مجلس فخر بحرین کے سرپرست جناب شکیل احمد صبر حدی کو مبارک باد پیش کی . ایڈووکیٹ مجید میمن صاحب نے آنند نرائن ملّا کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آنند نرائن ملّا اپنے عصر میں محبّت ،مروت ..............................
بعد ازاں مشاعرے کی نظامت کے لئے جناب عزیز نبیل نے ناظم مشاعرہ محترم انور جلال پوری کو دعوت دی .
مشاعرے کا باقاعدہ آغازپر محترم انور جلال پوری نے بحرین کے نوجوان شاعرفیضی اعظمی کو دعوت دی
مشاعرے کا آغازفیضی اعظمی نے اپنے تازہ کلام سے کیا،محترم ریاض شاہد ،محترم رخسار ناظم آبادی ،محترم احمد عادل نے اپنے منتخب کلام سے سامعین کو بہت متاثر کیا ۔خوش ذوق سامعین ہر اچھے اور عمدہ شعر پر داد و تحسین دے رہے تھے۔ اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے مشاعرے کو سنجیدگی کے ماحول سے مزاح کی طرف لے جانے کے لئے محترم شوکت جمال کو دعوت سخن دی ان کے مزاحیہ کلام نے سامعین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔سامعین واہ۔واہاور قہقوں سے پسندیدگی کی سند پیش کرتے رہے۔محترم اقبال قمر،محترم سہیل ثاقب نے اپنے کلام سے سامعین کو بہت متاثر کیا . ناظمِ مشاعرہ نے مجلسِ فخرِ بحرین کے مشیرِ خاص جنابِ عزیز نبیل کو دعوت دی۔ عزیز نبیل کے کلام پر تمام حاضرینِ محفل مسلسل داد دیتے رہے۔ ناظم مشاعرہ مسند نظامت سے اٹھ کر میدان غزل گوئی میں محترم شاہد ذکی تشریف لائے اور اشعار پر سامعین سے بے پناہ داد بھی وصول کی.محترم خوشبیر سنگھ شاد ،محترمہ علینا عترت ،محترم حامد اقبال صدیقی نے اپنے اپنے دلفریب کلام سے مشاعرے کی گرم جوشی کو برقرار رکھا اور سامعین کے دلچسپی میں ذرہ برابر کمی نہ آنے دی۔رات گئے مشاعرہ آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا مگر سامعین کے چہروں پر تازگی بالکل برقرار تھی وہ تمام شعراء کے کلام کو سماعت فرمانے کے لیے بے چین تھے۔محترم پروفیسر شہپر رسول نے اپنے کلام سے مشاعرے میں رنگ بھر دیا۔محترم انور جلال پوری کے کلام نے بھی سامعین کے دلوں پر خوب اثر کیا اور مشاعرے کو چار چاند لگا دیئے۔محترم شین کاف نظام نے اپنے کلام کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کر کے سب کو حیرت زدہ کر دیا۔
محترم پروفسیر وسیم بریلوی کسی تعارف کے محتاج نہیں،انہیں بہت توجہ اور احترام سے سنا گیا اور خوش ذوق سامعین ہر شعر پر داد دیتے رہے .میرِ مشاعرہ ایڈووکیٹ مجید میمن صاحب نے کلام پیش کر کے مشاعرے کو یادگار بنادیا۔ مشاعرے میں اہلِ ذوق خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ شائقینِ ادب کی کثیر تعداد ، اختتامِ مشاعر ہ تک پوری دلجمعی کے ساتھ مشاعرہ گاہ میں موجود رہی۔
بلاشبہ یہ مشاعرہ بہار کی تازہ ہوا کا ایک زوردار جھونکا ثابت ہوگا۔ جی ہاں موسم بہار کی وہی تازہ ہوا جس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقہ گردش حال لے گئی