اک نئی صبح کا اعلان کیا ہے میں نے
چشمِ بے خواب میں اک خواب رکھا ہے میں نے
رات کے سینے پہ خورشید کا نقشہ کھینچا
کوزہ ٔ صبح میں امکان بھرا ہے میں نے
آنکھ میں رکھ لیا بپھرے ہوئے دریا کا غرور
پاؤں سے دشتِ بلا باندھ لیا ہے میں نے
وہ جو اک عمر، مری جاں سے بھی نزدیک رہا
وہ اسی شہر میں رہتا ہے، سنا ہے میں نے
میں تو گم بیٹھا ہوں دیوار کی حیرانی میں
آئینہ تیرے لیے چھوڑ دیا ہے میں نے
جو بھی کرنا ہے تمہیں شوق سے جاؤ کر لو
جو بھی کہنا تھا بہر حال کہا ہے میں نے
تجھے معلوم بھی ہے؟ میرے سخن ساز نبیلؔ
تو نے جو لکّھا نہیں، وہ بھی پڑھا ہے میں نے
—-