پکارتے پکارتے صدا ہی اور ہوگئی
قبول ہوتے ہوتے ہر دعا ہی اور ہوگئی
ذرا سا رک کے دو گھڑی چمن پہ کیا نگاہ کی
بدل گیا مزاج گل ہوا ہی اور ہوگئی
یہ کس کے نام کی تپش سے پور پور جل اٹھے
ہتھیلیاں مہک گئیں حنا ہی اور ہوگئی
خزاں نے اپنے نام کی ردا جو گل پہ ڈال دی
چمن کا رنگ اڑ گیا صبا ہی اور ہوگئی
غرور آفتاب سے زمیں کا دل سہم گیا
تمام بارشیں تھمیں گھٹا ہی اور ہوگئی
خموشیوں نے زیر لب یہ کیا کہا یہ کیا سنا
کہ کائنات عشق کی ادا ہی اور ہوگئی
جو وقت مہرباں ہوا تو خار پھول بن گئے
خزاں کی زرد زرد سی قبا ہی اور ہوگئی
ورق ورق علینا ہم نے زندگی سے یوں رنگا
کہ کاتب نصیب کی رضا ہی اور ہوگئی