رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا

ملی ہواؤں میں اڑنے کی وہ سزا یارو
کہ میں زمین کے رشتوں سے کٹ گیا یارو

وہ بے خیال مسافر، میں راستہ یارو
کہاں تھا بس میں مرے اسکو روکنا یارو

مرے قلم پہ زمانے کی گرد ایسی تھی
کہ اپنے بارے میں کچھ بھی نہ لکھ سکا یارو

تمام شہر ہی جسکی تلاش میں گْم تھا
میں اسکے گھر کا پتہ کس سے پوچھتا یارو
٭…٭…٭